قرآن
کریم میں عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات
اور
موجودہ عیسائیت
قرآن پاک اپنے سے پہلے نازل ہونے والی
کتب وانبیاء کی تصدیق کرتا ہے؛ بلکہ قرآن مجید میں
ان کی تعلیمات کا ذکر بھی کیاگیا ہے، حضرت سیدنا
عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف
مبعوث کیے گئے تھے،عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تبارک
و تعالیٰ کی جانب سے کتاب انجیل نازل کی گئی
تھی، جس میں بنی اسرائیل کے لیے ہدایت تھی۔
قرآن کریم میں بھی عیسیٰ
علیہ السلام کی تعلیمات کا ذکر کیاگیا ہے، ذیل
میں ہم قرآن شریف میں عیسیٰ علیہ
السلام کی تعلیمات اور موجودہ انجیل میں ان کی تعلیمات
کا مختصر جائزہ لیں گے، جس سے یہ واضح ہوسکے گا کہ ان کی اصل
تعلیمات کیا تھیں اور موجودہ عیسائیت کس طریقے
پر چل رہی ہے، عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا
زمانہ گرچہ بڑا مختصر تھا؛ مگر انھوں نے اس مختصر عرصے میں تعلیمات کے
وہ نقوش چھوڑے جو ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ
السلام ان عظیم الشان اولوالعزم انبیاء کرام میں سے ہیں
جن کا ذکر قرآن کریم نے بہ طور خاص کیا ہے اور جن کی تعلیمات
کا بار بار حوالہ دیا ہے، قرآن مجید ایک طرف تو حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی عظمت ورفعت کو اجاگر کرتا ہے؛ تاکہ ان کے متعلق یہودیوں
کی پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کا قلع قمع ہو اور دوسری
طرف ان لوگوں کی شدید مذمت کرتا ہے جنھوں نے ان کو خدا یا خدا
کا بیٹا قرار دیا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید سیدنا عیسیٰ
علیہ السلام کی صاف ستھری تعلیمات کا بار بار حوالہ دیتا
ہے، جن سے عقیدئہ توحیدورسالت اور آخرت کی بخوبی وضاحت
ہوتی ہے، کلام پاک نے متعدد مقامات پر عیسیٰ علیہ
السلام کی تعلیمات کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم بنی
اسرائیل کو کیا تعلیم دی تھی۔
خداوند قدوس کا ارشاد ہے:
”وَإِذْ
قَالَ اللہُ یَا عِیسَیٰ ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنْتَ
قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ وَأُمِّیَ إِلٰھَیْنِ
مِنْ دُونِ اللہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ
مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ إِنْ کُنْتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ
تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِیْ وَلا أَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ
إِنَّکَ أَنْتَ عَلامُ الْغُیُوبِ (سورة المائدة: ۱۱۶)
ترجمہ: اور جب اللہ تعالیٰ
فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تونے لوگوں سے یہ
کہا تھا کہ اللہ جل شانہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو تم معبود
بنالینا؟ وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات پاک ہے، مجھے جس بات
کے کہنے کاحق نہ تھا میں کیسے کہہ دیتا؟ اگر میں نے کہا
ہو تو تو خوب اچھی طرح جانتا ہے، میرے دل کی باتیں تجھ پر
بخوبی روشن ہیں، ہاں تیرے جی میں جو ہے وہ مجھ سے
مخفی ہے، تو تو تمام تر غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ
لکھتے ہیں:
”جن لوگوں نے مسیح پرستی یا
مریم پرستی کی تھی ان کی موجودگی میں قیامت
کے دن اللہ جل شانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے
گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور والدہ کی پوجاپاٹ کرنے کو
کہہ آئے تھے؟ اس سوال کا مقصد نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا
ہے؛ تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل وخوار ہوں۔“ (ابن کثیر،
ج:۲، ص:۱۴۳)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے قول کو نقل فرمایا ہے کہ:
”اِنَّ
اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہ ھٰذَ صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْم“
(القرآن)
”بلا شبہ، اللہ ہی میرا اور
تمہارا پروردگار ہے، تو اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا
راستہ ہے۔“
ان آیات کریمہ سے صاف طورسے
معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی
دعوت وتبلیغ بھی بعینہ وہی تھی جو دوسرے تمام انبیاء کرام کی تھی،
مثلاً پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے؛ لہٰذا
وہی اکیلا عبادت کے لائق وفائق ہے، اس لحاظ سے عیسائیوں
کا عقیدہ الوہیت مسیح غلط قرار پاتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ
کے نمائندہ کی حیثیت سے نبی کی اطاعت کی جائے
اور ہر نبی کی دعوت یہی رہی ہے، حلت وحرمت اور جواز
وعدم جواز کے اختیارات کا مالک صرف خداوند تعالیٰ ہے، لہٰذا
جو باتیں تم نے خود اپنے اوپر حرام قرار دے رکھی ہیں میں
اللہ کے حکم سے انھیں حلال قرار دے کر تمہیں ایسی ناجائز
پابندیوں سے آزاد کرتا ہوں، نیز آپ نے اللہ کے حکم سے یہودیوں
پر ہفتہ کے دن کی پابندیوں میں بہت حدتک تخفیف کردی؛
مگر یہودیوں کی اصلاح نہ ہوسکی اور حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی دشمنی میں آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔
درحقیقت حضرت عیسیٰ
علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خاتم الانبیاء
امام الرسل محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء
کرام کے مشن میں کوئی زیادہ خاص فرق نہیں ہے؛ بلکہ سبھی
حضرات انبیاء کرام اصول میں متفق ہیں؛ لیکن فروعات میں
کچھ مختلف ہیں۔
افسوس ہے کہ موجودہ انجیل میں
حضرت مسیح علیہ السلام کے مشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں
کیاگیا جس طرح قرآن مجید میں پیش کیاگیا
ہے، تاہم منتشر طورپر اشارات کی شکل میں وہ بنیادی نکات
ہمیں اس کے اندر ملتے ہیں، مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ
کی بندگی کے قائل تھے، ان کے ارشادات سے صاف ظاہر ہوتا ہے:
”تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف
اسی کی عبادت کر۔“ (بائبل متی:۱:۴۱)
اور صرف یہی نہیں کہ وہ
اس کے قائل تھے؛ بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ زمین
پر خدا کے امرشرعی کی اسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے
امرتکوینی کی اطاعت ہورہی ہے۔
”تیری بادشاہی آئے، تیری
مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے، زمین پر بھی
ہو۔“ (بائبل متی ۱۰/۶)
اسی طرح ان کے متعدد اقوال سے معلوم
ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے آپ کو نبی اور آسمانی
بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اور اسی
حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا صاف
ارشاد ہے:
لَقَدْ
کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللہَ ھُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ
وَقَالَ الْمَسِیحُ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا
اللہَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ مَنْ یُشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ
اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ
مِنْ أَنْصَارٍ (سورة المائدة: ۵/۷۲)
ترجمہ: ”بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جن کا
قول ہے کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے؛ حالانکہ خود مسیح نے
ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو،
جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے
ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ اس پر قطعاً جنت حرام کردیتا ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم
میں ہے، گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔“
قرآن وبائبل کے مندرجہ بالا آیات کریمہ
سے ایسی تمام باتوں کی جامع تردید ہوجاتی ہے، جو
لوگوں نے پیغمبروں کی طرف منسوب کرکے اپنی مذہبی کتابوں میں
شامل کرلی ہیں، جن کی رو سے کوئی پیغمبر یا
فرشتہ معبود قرار پاتا ہے، ان آیات میں ایک قاعدہ کلیہ بیان
کردیا گیا ہے کہ گو ایسی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی
اور کی بندگی سکھاتی اور بندے کو خدا کے مقام تک لے جاتی
ہو وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہوسکتی
اور جہاں کسی مذہبی کتاب میں کوئی ایسی بات
ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ گمراہ کن عقیدہ لوگوں کی
تحریفات کا نتیجہ ہے۔
$$$
-----------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد:101 ،شوال 1438
ہجری مطابق جولائی 2017ء